زہرا کے گهرانے میں قیامت کا سماں ہے

ہر ایک طرف آج فقط آہ و فغاں ہے


اے میرے خدا اٹها آج جہاں سے

کہ علم کی آنکهوں سے بهی اب اشک رواں ہے


جو زندگی بهر روتا رہا کرب وبلا پر

اب کرب وبلا اسکے لئیے نوحہ کناں ہے


جلتا ہوا خیمہ ہو یا چهنتی ہوئ چادر

ہر درد ابهی تک دل باقر میں نہاں ہے


رخسار سکینہ پہ نشان جیسا ہے لوگو

رخسار پہ باقر کے بهی ویسا ہی نشاں ہے


وہ جلتی زمیں اور شہ دین کا لاشہ

عابد کا پسر آج تلک بهولا کہاں ہے


تم مر کے بهی مرقد میں نہ رہ پائے سکوں سے

غربت تری ٹوٹی ہوئ تربت سے عیاں ہے


یہ لکھ کے قلم اشک بہاتا ہے رضا کا

باقر کی شہادت پہ قیامت کا سماں ہے


حسن رضا بنارسی 


مشخصات

آخرین ارسال ها

آخرین جستجو ها